؞؞ روداد سفر پٹنہ؞؞
___
قسط دوم
بقلم : عبداللہ سہل
داناپور : یہ ہندوستان کی ریاست بہار کی دارالحکومت پٹنہ ضلع کا ایک آباد مقام ہے، اس علاقہ نے بہتیرے ادباء، علماء و صلحاء کو پیدا کیا ہے۔ میاں صاحب کے شاگرد مولوی عبدالغفور داناپوری اسی علاقہ کے تھے۔
اسی علاقہ کے بارے میں بہار کے مشہور صوفی شاعر شاہ اکبر داناپوری نے یہ شعر کہا تھا۔ ع
رہے داناپور آباد و شاد
الہی بر آئے سبھوں کی مراد
داناپور سے بذریعہ آٹو ہم نے پھلواری شریف کا رخ کیا جہاں ہمارے دوست مولوی عبد اللہ ارشد آٹو اسٹیند پر انتظار کر رہے تھے، تقریباً بارہ بجے کے قریب ان کے گھر میں ہم مہمان ہوئے۔
پھلواری شریف : ہزار سالوں قبل انسانی آبادی سے پہلے اس سرزمین پر راجہ اشوک کا نادر روزگار باغ تھا جسے لوگ " راجہ کی پھلواری" کہتے تھے۔ امتداد زمانہ سے باغ کی وہ رونق بے نور ہو گئی، اور گلستان کھنڈر بن گیا۔ بعد میں سنیاسی فقراء نے اسے اپنا مسکن و معبد بنایا کچھ مدت بعد جین و بدھ مذہب وغیرہ کے لوگ آۓ اور اسے مزید آباد کیا بعد ازاں جب اسلامی تہذیب کا اثر اس علاقہ پر پڑا تو یہاں اللہ والے ملنے لگے، اور اب علاقہ میں صوفیت کا خوب چرچا ہے۔
میاں صاحب محدث دہلوی کے مشہور شاگرد شاہ عین الحق پھلواری (م 1333ھ) اور شاہ سلیمان پھلواری (م 1935ء) اسی علاقہ کے تھے۔
یہ علاقہ عالی سند والے علماء و فضلاء حضرات کا مسکن رہا ہے۔
مولوی عبد اللہ ارشد پھلواری شریف کے عیسی پور نامی محلہ میں رہتے ہیں جہاں اہلحدیث کی ایک ہی مسجد ہے جس میں لوگ دور دور سے نماز پڑھنے آتے ہیں۔
ہماری ٹرین ساڑھے گیارہ بجے رات داناپور پہنچی تھی جہاں سے ہم نے مولوی عبد اللہ ارشد کے گھر کا رخ کیا، رات میں ہم دونوں یعنی میں اور عبداللہ مظھر اسی خیال میں تھے کہ صبح کب ہوگی، چند گھنٹوں کی رات اس روز مزید طویل ہوتی جا رہی تھی، ہر طرف سناٹا تھا، باہر دور کتوں کی آواز سنائی دے رہی تھی، مکانوں اور فلک بوس عمارتوں کو اوس نے اپنے شکنجہ میں لے لیا تھا، گویا رات کی تاریکی یہ ندا لگا رہی ہو "یا لیل طل" لیکن اس روز تکان کے باوجود نیند دیر سے آئی وہ تو میں کسی طرح سو گیا لیکن عبد اللہ مظھر رات بھر جاگتے رہے، کہتے ہیں کہ "مجھے نیند ہی نہیں آرہی تھی"۔
بالآخر دنیا کی گھڑی نے غلس کا وقت لا ہی دیا، آسمان پر صبح کاذب نے صبح صادق کو مطلع کر دیا کہ اب طلوع ہو جاؤ، تو روشنیاں افق کے پردے کو چاک کرتے ہوئے اس کونے سے اس کونے تک پھیل گئی، جہاں دیکھوں اجالا ہی اجالا تھا لیکن پر سکون ماحول میں شبنمی ہواؤں کے جھونکے تیز تھے، جس کی بنا پر کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا اور اس سخت ٹھنڈ سے بچاؤ کے لیے مہمان خانہ میں داخلہ کے بعد کمبل نے خوب کام کیا۔
پھر مولوی عبد اللہ ارشد کے والد محترم ارشد ہاشمی صاحب نے خوب علمی گفتگو کی، اپنے مسلک منتقلی میں جو جو دشواریاں آئی تھیں اس کو سنا رہے تھے اور سلفیت میں گہرائی حاصل کرنے کے لیے ابھار رہے تھے۔
جاری.....
>>Click here to continue<<